UNCLE SAM KAY DES SE انکل سام کے دیس سے
₨ 1,195
- Author: SALMAN KHALID
- Pages: 184
- DELUXE EDITION
- ISBN: 978-969-662-429-5
سلمان خالد کا تعلق فیصل آباد سے ہے جو کبھی لائل پور کہلاتا تھا۔ ان کے اطوار میں لائل پور کی تہذیب، روایت اور شگفتگی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کی سوچ، فکر اور تحریر میں ایک قدیمی دانش کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان اہلِ نظر میں سے ہیں جو نئی بستیاں ڈھونڈتے ہیں؛ نئے اُفق کی تلاش، نئے زمانوں کی کھوج۔ ’’انکل سام کے دیس سے‘‘ اپنی طرز کا ایک انوکھا سفرنامہ ہے جو کمال دلآویزی سے امریکی ریاستوں، درودیوار اور مکینوں سے روشناس کراتا ہے اور سطور اور بین السطور میں کچھ کہتے، کچھ نہ کہتے، بہت کچھ کہہ دیتا ہے۔ دردمندی، گداز اور اخلاص، اس تحریر کا اصل خاصہ ہے۔
سلمان خالد نے خاص مہربانی یہ کی کہ وہ اخوت کے دوستوں میں شامل ہو گئے اور اس کتاب کی آمدنی انھوں نے اخوت یونیورسٹی کے لیے عطیہ کر دی جس پر انھیں ہدیۂ تبریک پیش کیا جانا چاہیے۔ اخوت، الحمدللّٰہ، قرضِ حسنہ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اخوت یونیورسٹی بھی علم کا ایک بڑا مرکز بنے گی( ان شاءاللّٰہ) اور اس کا ایک حصہ سلمان خالد کے نام اور اخوت کے ان دوستوں کے نام مختص ہو گا جو پاکستان سے باہر ہیں لیکن پاکستان ان کے دل میں بستا ہے۔ اخوت کی تسبیح میں پروئے ہوئے یہ اَن گنت موتی ہمارا اثاثہ ہیں۔ انہی کی چمک سے غربت، افلاس اور جہالت کے اندھیرے دُور ہوں گے۔ ’’انکل سام کے دیس سے‘‘ ایک پاکستانی کی کہانی ہے۔ مقام اور موقع محل بدل جاتے ہیں، محبّت قائم رہتی ہے۔ اس کتاب سے بھی وہی مہک پُھوٹتی ہے جس کا نام پاکستان ہے۔
(ڈاکٹر امجد ثاقب)
سلمان خالد ایک علم دوست، صاحبِ دل اور صاحبِ مطالعہ شخص ہیں۔ صاحبِ قلم ادب کا شناور ہو تو اس کا اندازِ تحریر بہت متنوع اور جاندار ہوتا ہے۔ سلمان خالد بہت انوکھے انداز میں اپنے قارئین کو امریکہ کی مختلف ریاستوں، مختلف شہروں کی سیر پوری معلومات کے ساتھ کراتے ہیں۔ ان کا ہشاش بشاش طرزِ تحریر کسی گرانی کے بغیر ہزاروں میل کا سفر طے کرا دیتا ہے۔
(عطاء الحق قاسمی)
سلمان خالد بہت روانی کے ساتھ امریکی طرزِ معاشرت اور امریکیوں کے بارے میں ہر طرح کی معلومات سے آگاہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ لوگوں کے مزاج، سیاسی رجحانات، سماجی تعلقات اور وہاں کا کلچر اس طرح بیان کرتے ہیں کہ لگتا ہے ہم خود یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ وہ امریکہ کو ایک ٹورسٹ کے انداز سے نہیں، ایک بھیدی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور یہی آنکھ قاری کی بھی وا ہو جاتی ہے۔
(امجد اسلام امجد)
سلمان خالد کا یہ سفرنامہ ایک اچھے فیملی مین اور شریف انسان کے ان دس دنوں کی کہانی ہے جو ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بھی اسی طرح آئیں لیکن اپنی عادتوں کی وجہ سے ہم اپنے ایسے دنوں میں بھی وہ رنگ نہیں بھر سکتے جو سلمان خالد نے پینٹ کیے۔ ہر قدم پہ خدا کا شکر ادا کرتا، کھانے انجوائے کرتا، بیگم بچوں کو سیر کراتا سلمان خالد وہ دیسی ہے جو امریکہ جا کر نہیں بدلا، کم از کم اس کتاب سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ دو تین گھنٹے میں کتاب مُک جاتی ہے لیکن خیال آتا ہے کہ سفر جاری رہنا چاہیے تھا۔ کوئی ایک آدھی گوری اپنی حدیں پار کرتی، کوئی پب ہوتا، کوئی ان پہ ڈُل جاتا …. ایک دو جگہ ویسے یہ سانحہ بھی پیش آیا لیکن خود سے تیس سال بڑی خواتین نے ہی نظرِ شفقت کی، خدا جانے کیا وجہ ہوئی۔ اگر آپ سفرناموں میں اچھا کھانا انجوائے کرتے ہیں، رواں نثر پڑھنا چاہتے ہیں اور قدم قدم پہ بہت زیادہ انگریزی الفاظ سے نہیں گھبراتے (جو میں خود بھی استعمال کرتا ہوں) تو بسم اللہ کیجیے، پسند آئے گا۔
(حسنین جمال- داڑھی والا)