SHIRAAZA (KULYATE ANWAR MASOOD) NAZMAIN GHAZLAIN شیرازہ (کلیات انور مسعود) نظمیں غزلیں
Original price was: ₨ 3,000.₨ 2,100Current price is: ₨ 2,100.
- Author: ANWAR MASOOD
- Pages: 736
- Year: 2024
- ISBN: 978-969-662-528-5
- Publish Date: 2024-01-14
خوشی کی بات ہے کہ بک کارنر جہلم نے اُن کے قطعات کی کُلِّیات کے بعد اب اُن کے متنوّع کلام کے نو مجموعوں کی یکجا اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ اِس نئی کُلِّیات (شیرازہ) کی وساطت سے انور مسعود کی ہمہ جہت اور پہلودار شاعری جامعیت کے ساتھ قارئین کے سامنے آ سکے گی اور اُن کے مدّاح اُن کے فن کی رنگارنگی سے بھرپور استفادہ کر سکیں گے۔ میں اس اشاعت کا خیر مقدم کرتے ہوئے، انورمسعود، بک کارنر اور قارئین سب کی خدمت میں تہنیت پیش کرتا ہوں۔
خورشید رضوی
مخدومی، محبّی انور مسعود اس دور کے چند مقبول ترین شعرا میں شامل ہیں۔ پوری دُنیائے اُردو انھیں ذوق و شوق سے سنتی ہے۔ اُن کے متفرق اشعار بلکہ نظموں کی نظمیں مدّاحوں کو زبانی یاد ہیں۔ چشمِ بددُور، یہ ہردلعزیزی ہر کسی کو نہیں ملتی، تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔ مزاح گوئی کے علاوہ سنجیدہ گوئی میں بھی انور مسعود کا جواب نہیں، وہ ہنسانا بھی جانتے ہیں، رُلانا بھی۔ طربیہ اور المیہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں، نیز بہ یک وقت وہ تین تین زبانوں میںطبع آزمائی کرتے ہیں، پنجابی، اُردو اور فارسی۔ ایسے کثیر الانواع اور کثیر اللسان شخص کو ’شاعر‘ کے بجائے ’شعرا‘ کہنا چاہیے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔
انور شعور
برادرِ عزیز و دوستِ مکرّم انورمسعود ہمارے عہد ہی کے نہیں، پوری اُردو شاعری کی تاریخ میںمزاحیہ طرزِ سخن کے نامور ترین ہنروروں میں شمار ہوتے ہیں۔ نثرمیں جس طرح اِس دور کو مشتاق احمد یوسفی سے منسوب کیا جاتا ہے اسی طرح شعر میں اس عہد کو انور مسعود کا عہد قرار دیا جاتا ہے۔ اکبرالٰہ آبادی کے بعد وہ اُردو کے سب سے بڑے مزاح نگار شاعر ہیں۔ اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں انھوں نے بہت لکھا اور بہت خوب لکھا۔ اتنا محبوب اور اتنا مقبول شاعر فی زمانہ اور کوئی نظر نہیں آتا۔ زبانوں پر دسترس کمال کی، بیان پر بے مثال قدرت اور مستزاد توفیقاتِ الٰہی، ہر لمحہ دل سے دُعا نکلتی رہتی ہے۔
افتخار عارف
قبل ازیں انور مسعود کے برجستہ قطعات کی کُلِّیات شائع ہو کر داد وصول کر چکی ہے۔ اب ان کی سنجیدہ اور طنزیہ و مزاحیہ اُردو، پنجابی اور فارسی شاعری کے تمام مجموعے کُلِّیات (شیرازہ) کی شکل میں منصہ شہود پر آرہے ہیں۔ انور مسعود کے کلام کی بہ زبانِ شاعر سماعت ہو یا کاغذ پر لکھے ان کے سخن کی قراَت، دونوں کی لذت سامع اور قاری کو اس قدر مسحور کر دیتی ہے کہ وہ ایک لمحے کو آنکھ تک جھپکنا بھول جاتا ہے اور بےاختیار بیدلؔ کا مصرع یاد آتا ہے: مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگِ تماشا را۔ اُمید واثق ہے کہ ’’شیرازہ‘‘ کی صورت میں اب ان کے سارے مجموعوں کی یکجائی ان کی یکتائی کی ایک اور تازہ بُرہان مہیا کرے گی اور کلّیت میں ان کے فکروفن کی تحلیل و تحسین، انور شناسی کا ایک نیا باب کھولے گی۔
ڈاکٹر تحسین فراقی