برسوں ہوئے میں ایک بار گُل مرگ گیا اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہرا تو اُس کے منیجر نے بتایا کہ کرشن چندر نے اُس ہوٹل کے ایک کمرے میں اپنا ناول ’’شکست‘‘ مکمل کیا تھا۔ مَیں نے کہا، مجھے وہ کمرہ تو دکھائو۔ اُس کمرے میں دو کھڑکیاں تھیں۔ میںنے ایک کھڑکی کھولی تو سامنے ایک بالکنی تھی (اس بالکنی کی کہانی وہ لکھ چکا ہے) اور اس بالکنی میں سے گُل مرگ کی سرسبز وادی اور کھلن مرگ کی برفیلی چوٹیوں کا حسین منظر دکھائی دیا۔ لیکن دوسری طرف کی کھڑکی کھولی تو دیکھا کہ ہوٹل کا پچھواڑا ہے، جہاں کُوڑا کباڑ پڑا ہے، گھورے کے ڈھیر ہیں، اُن پر بھنبھناتی مکھیاں ہیں، ہوٹل کا ’’کالو بھنگی‘‘ صاحب لوگوں کے کموڈ صاف کر رہا ہے اور ہوٹل کے بیروں کی چھوٹی چھوٹی گندی اندھیری کوٹھریاں ہیں اور مَیں نے محسوس کیا کہ یہ دو کھڑکیاں کرشن چندر کے کمرے ہی میں نہیں اُس کے دل اور دماغ میں بھی کھلی ہوئی ہیں۔ ایک کھڑکی میں سے وہ قدرت اور زندگی کا حُسن دیکھتا ہے اور اُس کا شاعرانہ تخیل جھوم اُٹھتا ہے اور دوسری کھڑکی میں سے وہ انسان کی حالت دیکھتا ہے جو چاروں طرف پھیلے ہوئے قدرتی حُسن اور قدرت کی فیاضی کے باوجود غربت، لاچاری، گندگی اور بیماری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور اُس کا درد آشنا دل دُکھ ہی سے نہیں، غصے سے بھر جاتا ہے۔ ان دونوں کھڑکیوں میں سے دکھائی دینے والے نظاروں کے تضاد نے کرشن چندر کی شخصیت، اُس کے نظریے، اُس کے اسٹائل اور اُس کے آرٹ کی تشکیل کی ہے۔
خواجہ احمد عباس