✍ ڈرامہ نگار، دانشور اور طنزو مزاح نگار انور مقصود سے کسی نے پوچھا:
’’پاکستانی سیاستدانوں کو الیکشن میں کیسے چُنا جائے؟‘‘
انور مقصود نے بامعنی جواب دیا:
’’جیسے اکبر بادشاہ نے انارکلی کو ’’چنا‘‘ تھا–دیوار میں –‘‘
✍ ایک دفعہ مرزا غالب گلی میں بیٹھے آم کھا رہے تھے، ان کے پاس ان کا ایک دوست بھی بیٹھا تھا جو کہ آم نہیں کھاتا تھا۔ اسی وقت وہاں سے ایک گدھے کا گزر ہوا تو غالب نے آم کے چھلکے گدھے کے آگے پھینک دئیے۔ گدھے نے چھلکوں کو سونگھا اور چلتا بنا تو غالب کے دوست نے سینہ پھلا کر کہا دیکھا مرزا، گدھے بھی آم نہیں کھاتے تو مرزا نے بڑے اطمینان سے کہا کہ جی ہاں دیکھ رہا ہوں گدھے آم نہیں کھاتے۔
✍ ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں ۔
اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا :
’’جون صاحب ! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔ یہاں اہلِنظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ، ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
✍ جوش ملیح آبادی نے پنجابی زبان کی اکھڑ پن سے زچ ہو کر کنور مہندر سنگھ بیدی سے کہا: ’’کنور صاحب! کیا آپ جانتے ہیں کہ دوزخ کی سرکاری زبان یہی آپ کی پنجابی ہوگی۔‘‘ کنور صاحب نے برجستہ جواب دیا: ’’تو پھر جوش صاحب! آپ کو ضرور سیکھ لینی چاہیے۔‘‘
✍ مرزا غالب رمضان کے مہینے میں دہلی کے محلے قاسم جان کی ایک کوٹھری میں بیٹھے پچیسی کھیل رہے تھے۔ میرٹھ سے ان کے شاگرد مفتی شیفتہ دہلی آئے تو مرزا صاحب سے ملنے گلی قاسم جان آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ رمضان کے متبرک مہینے میں مرزا پچیسی کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اعتراض کیا: ’’مرزا صاحب ہم نے سنا ہے کہ رمضان میں شیطان قید کر دیا جاتا ہے۔‘‘ مرزا غالب نے جواب دیا: ’’مفتی صاحب آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شیطان جہاں قید کیاجاتا ہے، وہ کوٹھری یہی ہے۔‘‘
✍ ایک مرتبہ حبیب جالب نے ناصر کاظمی سے کہا:
’’جب بھی آپ کی کوئی غزل کسی رسالے میں دیکھتا ہوں، دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے، کاش یہ غزل میرے نام سے چھپتی!‘‘
ناصر کاظمی نے شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر بعد حبیب جالب نے پوچھا: ’’میری غزل دیکھ کے آپ کا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟‘‘
ناصر کاظمی نے کہا:
’’شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ غزل میرے نام سے نہیں چھپی۔‘‘
✍ ساحرلدھیانوی نے اپنی نظم ’’فن کار‘‘ کے ایک شعر میں عرصہ گاہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کسی نے اس لفظ پر اعتراض کیا تو ساحر نے ایک صاحب کی معرفت علامہ تاجور نجیب آبادی سے استفسار کیا۔
علامہ تاجور نے کہا:
’’اگر کسی دوست نے استعمال کیا ہے تو صحیح ہے، اگر کسی دشمن
نے لکھا ہے تو غلط ہے، میں دونوں طرح ثابت کر سکتا ہوں۔‘‘
✍ ایک اعلیٰ عہدے دار پطرس بخاری سے ملاقات کے لیے آئے، پطرس نے کہا: ’’تشریف رکھیے!‘‘
ان صاحب کو یوں محسوس ہوا کہ کچھ بے اعتنائی برتی جا رہی ہے، چنانچہ انہوں نے کہا: ’’مَیں محکمہ برقیات کا ڈائریکٹر ہوں۔‘‘
پطرس مسکرائے اور کہا: ’’پھر آپ دو کرسیوں پر تشریف رکھیے!!‘‘
✍ فیروز خان نون کی پہلی بیوی بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کر لی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا سالک سے بطور مشورہ پوچھا: ’’اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟‘‘
مولانا نے بے ساختہ جواب دیا: ’’آفٹر نون۔‘‘
✍ علامہ اقبال کو ستار بجانے کا بہت شوق تھا۔ ایک صبح ستار بجانے میں محو تھے کہ سرذولفقار علی اور سردار جو گندر سنگھ تشریف لے آئے۔ ان کو ستار بجاتے دیکھ کر جوگندر سنگھ بولے:
’’ہر وقت ستار کو گود میں لیے بیٹھے رہتے ہو۔‘‘
علامہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
’’کیا کروں ”سِکھنی“ جو ہوئی۔
✍ شاعروں، ادیبوں کے لطیفے | مرتب : شاہد حمید