علامہ محمد اقبال کے اردو کلام کا پہلا مجموعہ ’’بانگ درا‘‘ کے نام سے ستمبر 1924ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا۔ اسے آج بھی وہی مقبولیت اور اہمیت حاصل ہے جو 94سال قبل حاصل تھی۔ اس کے شروع میں علامہ محمد اقبال کا کوئی دیباچہ نہیں البتہ ان کے مخلص رفیق سر شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لاء، سابق مدیر ’’مخزن‘‘ کا نہایت قابل قدر دیباچہ شامل ہے جو مختصر ہونے کے باوجود اقبال اور ان کی شاعری کے بہترین تعارف کی حیثیت رکھتا ہے۔ فکرِ اقبال کے ارتقائی مدارج کا مکمل اور جامع اندازہ ’’بانگ درا‘‘ سے ہو سکتا ہے۔
’’بانگ درا‘‘ اردو ادب میں وہ گراںقدر اور عجوبۂ روزگار مجموعہ کلام ہے جسے قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جذبات نگاری، حب الوطنی اور قومی ملی درد سے لبریز جو خصوصیات اس مجموعہ کلام کی زینت ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ مشرق کے اس مفکر اعظم کی نوکِ قلم سے نکلی ہوئی وہ پکار جس نے وقت کی مُردہ رُوح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کتاب میں شاعر کی عظمتِ خیال کا ایک آئینہ جس میں فلسفۂ حیات بھی ہے۔ رموز کائنات بھی اور عارفانہ نکات بھی۔ یہ کتاب اردو ادب و زبان کے تاج میں ایک بیش قیمت ہیرا ہے۔
اقبال کے کلام میں بلا کی کشش اور حرارت ہے۔ دلآویزی فقید المثال ہے۔ مسلمانوں کے فکر و ادب میں کوئی ایسا شاعر اور مفکر نظر نہیں آتا جس کی فکر اس قدر ہمہ گیر نظر، اس قدر دُور رَس اور بیان اتنا دلآویز ہو۔ ان کی شعلہ نوائی دلوں میں سوزوگداز اور روح میں ہیجان اور ارتعاش پیدا کرتی ہو۔ اردو شاعری میں پہلی مرتبہ ایک ایسی بلند آہنگ آواز گونجی جس کے آتشیںنفس نے قوم کی اندھیری رات میں ایک شمع فروزان کر دی۔ جس نے قوم کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی ان کا پیغام حرارت کا پیغام ہے۔ جس میں جوشِ ارتقا ہے۔ عشق و جنون ہے جلال و جمال ہے۔ ان کی شاعری زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں ایک درس، ایک پیام اور ایک دعوت فکر و عمل ہوتے ہوئے بھی زبان و بیان کا سارا حُسن اور طرزِ ادا کی تمام دل کشی اور رعنائی موجود ہے۔
’’بانگِ درا‘‘ میں غزلیات بھی ہیںاور نظمیں بھی غزلیات میں سادگی بھی ہے اور پُرکاری بھی، شریعت بھی ہے اور فلسفہ بھی۔ نظموں میں جہاں مشاہدات فطرت اور مناظر قدرت پر بلند احساسات و نظریات کا اجتماع ہے۔ وہیں تہذیب و تمدن اور قوم و وطن کے اہم ترین پیچیدہ مسائل پر نہایت لطیف و نازک شاعرانہ خیال آرائیاں بھی ہیں اور مناسب حل بھی۔
اقبال نے جس ماحول میں خاص تاثرات و تصورات کے پیش نظر جو کچھ کہا ہے اسے دیانت داری سے اسی رنگ میں پیش کر دیا جائے تو فکر اقبال کے ارتقائی مدارج کا مکمل اور جامع انداز ہو سکتا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اقبال کو انہی کے کلام کے سیاق و سباق میں سمجھا جائے اور اپنے معنی نہ پہنائے جائیں۔ اس سلسلے میں پوری احتیاط رکھی گئی ہے کہ اپنی طرف سے کوئی آمیزش نہ ہونے پائے۔
اس وقت تک ’’بانگِ درا‘‘ پر کافی تعداد میں شرحیں لکھی گئی ہیں۔ پھر ایک ایسی کتاب کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، اکثر دوستوں کا مشورہ تھا کہ کتاب ایسی ہو جو اقبال کے فن و فکر کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہو۔ آسان اور عام فہم زبان میں لکھی گئی ہو۔ جس سے اقبال کی فکر کو سمجھنے اور ان کے فن کو پرکھنے میں طلبا کو مدد ملے۔ یہی احساس اس کتاب کی تالیف کا محرک ہوا۔ اس کے مطالعہ سے یہ مقصد اگر کسی حد تک بھی پورا ہو جائے تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری محنت ٹھکانے لگی۔
اس کتاب کے اگر ایک ایک شعر کو شرح و بسط کے ساتھ لکھا جاتا تو کتاب کی ضخامت اتنی بڑھ جاتی کہ اسے شائع کرنا مشکل ہو جاتا۔ اس لیے دیگر شارحین کی طرح اختصار ہماری بھی مجبوری بنی ہے۔ وہ اصحاب جو اب تک کسی وجہ سے ’’بانگِ درا‘‘ کے مطالب و معانی کو سمجھنے سے قاصر رہے ہوں انہیں اس شرح کی وساطت سے اپنی مشکلات حل کرنے کا موقع ملے گا۔
پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی