SAFEER-E-LAILA (KULYAT) سفیر لیلٰی (کلیات)
Original price was: ₨ 2,000.₨ 1,400Current price is: ₨ 1,400.
- Author: ALI AKBAR NATIQ
- Pages: 456
- ISBN: 978-969-662-425-7
علی اکبر ناطق کے بارے میں اب یہ حکم لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ جدید شعر میں ان کی اگلی منزل آگے کہاں تک جائے گی کہ ہر بار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں۔ اُن کے پہلے کلام میں تازگی اور میرا جی کی سی قوت اور داخلیت تھی۔ روایت اور تاریخ کا شعور بھی حیرت زدہ کرنے والا تھا۔ اب کے کلام میں لہجہ جدید نظم کے کلاسک شعرا سے بالکل الگ بھی ہے، نیا بھی ہے اور جوش درد سے بھی بھرا ہوا ہے اور صرف اور صرف اُن کا اپنا ہے، اس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے۔ محبت کی باتیں بہت ہیں لیکن اُن میں زیاں اور ضرر کا احساس بھی زیادہ ہے۔ لہجہ پیغمبرانہ ہے۔ نظم کا بہائو اور آہنگ کی روانی ایسی ہے کہ حیرت پر حیرت ہوتی ہے، خاص کر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت ان کے کلام پر پنجابی کا اثر عام سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہ پیوند بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ اس مجموعے کی نظمیں ہماری جدید شاعری کے لیے ایک مطلق نئی چنوتی لے کر آئی ہیں۔ اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے۔
شمس الرحمٰن فاروقی
الٰہ آباد
علی اکبر ناطق کی لگ بھگ ہر نظم سننے کے بعد جب بھی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید اِس نے اپنے اظہار کی معراج حاصل کر لی ہے اور اِس سے آگے بڑھنا نا ممکن ہو گا ،وہ اگلی ہی نظم میں ایک نیا راستہ اختیارکر کے نئے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے ۔ اِس کی مثال کے لیے ’’یاقوت کے ورق‘‘ میں شامل سفیرِ لیلیٰ دیکھیے جو اپنی اُٹھان کے لحاظ سے زمانۂ قبل از اسلام کے سبع معلقات کی یاد دلاتی ہے اور اِس کے بعد زیرِ نظر مجموعے میں دیسی رنگ ڈھنگ کی نظمیں دیکھیں۔ یقین کرنا مشکل ہو گا کہ یہ ایک ہی شاعر کی تخلیقات ہیں۔ نثر کے برعکس اِ س کی شاعری میں مابعد الطبیعاتی پہلو بہت نمایاں ہے۔ ناطق کی نظم کا بیج مٹی میں ضرور ہوتا ہے لیکن نظم اُوپر اور اُوپر اُٹھتے اُٹھتے جاودانی آسمان کی وسعتوں سے ہم آہنگ ہو کر آفاقی اسطورہ بن جاتی ہے جسے آپ غیرفانی اساطیر کے پہلو میں دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے ایک اعزاز رہا ہے کہ میں پچھلے دس برس سے علی اکبر ناطق کی تقریباً ہر نئی نظم کا اوّلین سامع رہا ہوں، اِس کے باوجود کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اُس کی نئی کاوش سنتے وقت دل میں یہ سوال پیدا نہ ہو کہ اِس شخص کی تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی تھاہ ہے بھی کہ نہیں ۔
زیف سید
اسلام آباد
میرؔ نے اکیسویں صدی میں جس ہرے بھرے اور شفاف قالب میں ٹھکانہ کیا ہے، اسے آپ ہم علی اکبر ناطق کے نام سے پہچانتے ہیں۔ ناطق کے شعر کا حال صبا ایسا لطیف اور آبشار جیسا نظیف ہو چلا ہے…. بس وہی عالم ہے ، میرؔ
لیتی ہے ہوا رنگ سراپا سے تمھارے
معلوم نہیں ہوتے ہو گلزار میں صاحب
آنے والا وقت اس کے شعری ہفت پہلوؤں سے کن کن اقلیموں کی سیر کرے گا، ہم میں سے اکثر کو اس کا کچھ کچھ ادراک ہو چلا ہے، البتہ معاصرانہ انا جگہ جگہ آڑے آتی ہے۔ میں تو اس پاک دل سفیرِ لیلیٰ کے ہمراہ اُردو نظم و غزل کے طویل سفر پر روانہ ہو چکا ہوں کہ آنے والے کئی زمانے ناطق کے ہیں۔
ناطق نے صدیوں کے رواں مگر امتدادِ زمانہ سے کم سواد ہو جانے والے خون کو شِیرِ شیریں میں بدلنے کا کسالہ کیسے کھینچا، یہ چند حروف اس کی شاعری کے اُسی سفر کی قدم پیمائی کرتے ہیں۔
ترے نگر کی راہ میں تھی ایک جھیل ایک چاند
مَیں جھیل میں اُتر گیا، مَیں چاند میں سما گیا
یہی مرا مکان تھا اور اِس جگہ نشست تھی
یہاں تُو ایک دن رُکا اور ایک دن چلا گیا
ارسلان احمد راٹھور
لاہور