MITTI ADAM KHATI HAI مٹی آدم کھاتی ہے
Original price was: ₨ 800.₨ 400Current price is: ₨ 400.
- Author: MUHAMMAD HAMEED SHAHID
- Pages: 176
- ISBN: 978-969-662-463-9
’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں مشرقی پاکستان/بنگلا دیش کی حقیقت سے آنکھ ملانے کی کوشش رومان اور تشدد کو یکجا کردیتی ہے۔ اسے محمد حمید شاہد کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے موضوع کو بھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگار گو مگو میں مبتلا ہوں گے کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔ دُکھ شاید سب کچھ سکھا دیتا ہے۔
(شمس الرحمٰن فاروقی)
نئے اردو افسانے کی تیسری نسل میںمحمد حمید شاہد کانام صفِ اول کے چند اہم افسانہ نگاروں میں شامل ہے۔ ناول ’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ نہ صرف موضوع اورفکر کے حوالے سے بہت اہم ہے بلکہ یہ اسلوب کے لحاظ سے بھی ایک نیا اور منفر دتجربہ ہے…. مصنف کی طرح اس کے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘ ‘ کی بھی اتنی بہت سی پر تیں ہیں کہ اگر مصنف چاہتا توان پرت درپرت واقعات اورکرداروں کی گرہیں کھولتے کھولتے اسے آسانی سے پانچ چھ سو صفحات پر پھیلا سکتا تھا۔ جب کہ آج کل طویل ناول لکھنے کا فیشن بھی ہے مگر اس نے ہنرمندا نہ دانشمندی کاثبوت دیتے ہوئے ایجازواختصار سے کام لیا۔
زبان و بیان کی خوبصورتی اورتشبیہوں کی ندرت اس ناول کی ایک اور بڑی خوبی ہے۔ یہ نہ صرف بیانیے کاحسن بڑھاتی ہیںبلکہ اس میں تہذیبی اورثقافتی رچاؤ پیداکرتی ہیں۔ مصنف نے ان سے کسی صورت حال یاکردار کی محاکاتی تصویر کشی کاکام بھی لیاہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش میں تبدیل ہوجانے اور برما کے راستے وہاںسے فرار کے بعد کہانی اپنے پہلے ٹھکانے پرواپس آجاتی اور ایک ڈرامائی موڑ مڑتی ہے۔ اس مرحلے پر ایک نیا انکشاف ہوتاہے۔ بیان کرنے والا کہانی کا ہی نہیں، خان جی کے خاندان کابھی حصہ بن جاتاہے۔ یہی وہ افسانوی تکنیک ہے جس کا میںنے شروع میں ذکر کیا ہے۔ شروع ہی سے لکھنے والے کواس بات کا شدّت سے احساس رہا کہ اسے ایک چست اورنئی طرز کی ایسی کہانی لکھنا ہے جس میں واقعہ احساس بن کر ہوا ہو جاتا ہو اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہوگیا۔
(محمد منشا یاد)
محمد حمید شاہد کی فکشنی دنیا موت سے آباد ہے۔ کردار یا مر جاتے ہیں یا جاں کنی کے عالم میں ہیں یا شعوری یا غیرشعوری طور پر مرنے کے خواہش مند ہیں؛ یا انھیں نیم زندہ یا نیم مردہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسی ہستیاں جو اپنی زندگی میں معنویت یا سمت گم کر چکی ہیں اور نیست و نابود ہو جانا کسی طرح کا حل نظر آتا ہے یا شاید معما جس میں داخل ہو کر اس گورکھ دھندے کا کچھ اتاپتا مل سکے جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس انداز کے فکشن میں خوشگواری کے پہلو یا لمحے بہت کم ہیں۔ لیکن یہی کابوسی یا مایوس کن کیفیت اسے حقیقت سے بہت قریب کر دیتی ہے کہ جس معاشرے یا ماحول یا سیاسی دباؤ میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ فلاح کی راہ نہیں دکھاتا۔ اس اعتبار سے ہم فکشن نگار کو قنوطی قرار نہیں دے سکتے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی نظر تاریک پہلوؤں کی طرف بار بار جاتی ہے۔ وجہ یہ کہ محمد حمید شاہد کی روش حقیقت پسندانہ ہے، گو پرانی وضع کی حامل نہیں۔ اس فکشن میں جدیدیت کی جو رو کار فرما ہے وہ پرانی یا ترقی پسندانہ فکر سے بہت دور اور بہت مختلف ہے۔ جو مریضانہ ماحول ہے وہ گردو پیش سے ابھر کر افسانوی دنیا کے رگ و ریشے میں رچ گیا ہے۔
(محمد سلیم الرحمٰن)
پچھلے دنوں محمد حمیدشاہد کا افسانہ‘‘ برشور’’ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں کردار سازی کا ہنر دیکھتے ہوئے مجھے منٹو یاد آ گیا کہ یہ کام اس سے خاص ہو کر رہ گیا تھا، اور، آپ کو کوئی تحریر پڑھ کر منٹو یاد آجائے تو بلاشبہ یہ کریڈٹ کی بات ہے۔
یہ ناول اس صنف کی عام ٹیکنیک سے ہٹ کر لکھا گیا ہے۔ یعنی یہ صاف سیدھا بیان نہیں ہے اور اس میں شاعری کی طرح کچھ پیچیدگیاں جان بوجھ کر بھی پیدا کی گئی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ واقعات کا بیان اس طرح سے ہے کہ اپنے وقوع کے حساب سے آگے پیچھے کر دیے گئے ہیں، اور اس لیے قاری کے لیے ذہنی مشقت کا بھی سامان پیدا کیا گیا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان اس کے پس منظر میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کا اختتامیہ بھی بنتا ہے۔ چنانچہ اس میں تشدد کا بیان بھی ہے، اور، ڈرامہ بھی۔ شاعری میں تازگی لانے کے لیے جہاں بہت سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں وہاں فکشن کو مرغوب اور دل چسپ بنانے کے لیے بھی بہت سے طریقے آزمائے جاتے ہیں جن میں سے ایک اس ناول میں بروئے کار لایا گیا ہے…. اس خصوصی ٹیکنیک کے باوجود ناول میں قاری کی دل چسپی آخر تک برقرار رہتی ہے جو کہ کامیاب فکشن کے ایک بنیادی وصف اور شرط کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ اس کے کردار بھی قاری کو متوجہ کیے رکھتے ہیں۔
(ظفر اقبال)