Sale!

MELA AKHIYAN DA میلہ اکھیاں دا

Original price was: ₨ 500.Current price is: ₨ 350.

  • Author: ANWAR MASOOD
  • Pages: 112
  • ISBN: 978-969-662-317-5

انور مسعود کی پنجابی شاعری میری حسرتِ اظہار ہے۔
(حفیظ جالندھری)

اتنا مشہور و مقبول شاعر قابل تشریح تو ہو سکتا ہے محتاجِ تعارف ہر گز نہیں ہوتا۔ اب وہ شہرت و مقبولیت کے اس مقام پر ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے تذکرے سے اپنے تعارف کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔ انور مسعود کی مزاحیہ پنجابی شاعری کا ایک مجموعہ ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ ملک میں اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ اس کی اکثر نظمیں کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی مشاعروں کے حوالے سے بے شمار لوگوں کو ازبر ہو چکی تھیں۔
(سیّد ضمیر جعفری)

مزاحیہ شاعری کا سب سے کٹھن اور فیصلہ کن ٹیسٹ مشاعرہ سمجھا جاتا ہے۔ جن آنکھوں نے انور مسعود کو اندرون و بیرون ملک مشاعرے لوٹتے اور تقریباً سارا کلام سنانے کے بعد بھی مزید قطعات کی فرمائشوں کے جواب میں اپنے دلآویز انداز میں مسکراتے اور آداب کرتے دیکھا ہے، اُنھیں ان کے مزاح کی کاٹ، سادگی اور قبولِ عام کا کوئی اور ثبوت درکار نہیں۔
(مشتاق احمد یوسفی)

انور مسعود کی پنجابی کا محاورہ ’’خالصہ‘‘ عوامی ہے۔ وہ بڑے سے بڑے موضوع کے لیے بھی کھری کہانی بولی کو استعمال میں لاتا ہے اور ہنساتا ہے، رُلاتا ہے اور لرزاتا ہے مگر وہ صرف طنزیہ شاعری نہیں کرتا، اس کی متعدد نظمیں ایسی ہیں جہاں وہ اپنی انگلیاں رُوحِ عصر کی نبض پر رکھ دیتا ہے مگر ایک عجیب بات یہ ہے کہ وہ اپنا لہجہ وہاں بھی نہیں بدلتا۔ وہی پنجاب کے کھیتوں، کھلیانوں اور گلیوں چوپایوں کا لہجہ پنجابی شاعری میں انور مسعود کی آواز بالکل نئی اور بہت رسیلی ہے۔
(احمد ندیم قاسمی)

انور مسعود ہمارے عہد کا نظیر اکبر آبادی ہے، کیسا بھی مشاعرہ ہو اور کیسے ہی سامعین ہوں، انور مسعود کے سٹیج پر آتے ہی ماحول میں جیسے جان سی پڑ جاتی ہے، چہروں پر مسکراہٹیں پھیل جاتی ہیں اور ہال یا پنڈال قہقہوں سے گونجنے لگتا ہے۔ اس کی پنجابی کی چند نظمیں تو ایسی ہیں جو اکثر لوگوں کو پوری کی پوری یاد ہیں مگر اس کے باوجود انور مسعود کے مخصوص انداز ہیں اور اس کی زبان سے انھیں سننے کا لطف ایسا ہے کہ بار بار سن کر بھی جی نہیں بھرتا۔
(امجد اسلام امجد)

بحیثیت شاعر انور مسعود کی شہرت و مقبولیت کا سبب ان کی اعلیٰ درجے کی مزاحیہ و طنزیہ شاعری ہے اور اس ضمن میں انھیں پاکستان ہی نہیں برصغیر کے صف اوّل کے چند شعرا میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
(حکیم محمد سعید)

پروفیسر انور مسعود کو پہلی بار میں نے دبئی کے عالمی مشاعرہ میں دیکھا۔ مسکراتا چہرہ اور چہرے پر اخلاص کی روشنی۔ وسیع المطالعہ، لفظوں کے پارکھ اور فارسی ادب کے استاد۔ فارسی ایسے بولتے ہیں جیسے شعر سنا رہے ہوں۔ آج دُنیا بھر میں ان کی مانگ ہے اور وہ مشاعروں کی جان ہیں۔ جدید و قدیم فارسی ادب پر ایسی نظر کہ کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔ خوش مزاج، خوش نظر اور خوش فکر بھی۔
(ڈاکٹر جمیل جالبی)

جس معاشرہ میں ایک خوشگوار نبض شناس شاعر موجود ہوں اس کی صحت کے بارے میں کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ انور مسعود نبض دیکھ کر نسخہ نہیں لکھتے، ان کا شعر بیمار اور مایوس معاشرہ کا شرطیہ علاج ہے۔ فرد ہو کہ قوم یہ کمزوریوں اور منافقتوں کا ذکر اس حسن بیان کے ساتھ کرتے ہیں کہ ایک آنکھ مسکرائے اور دوسری آنسو بھر لائے۔ ان کی مزاح کی لطیف حس، مشاہدے کی قابلِ رشک قوت اور اظہار پر کامل قدرت انہیں دوسرے اہل کمال پر ممتاز کرتی ہے۔
(مختار مسعود)

بلاخوف و تردید کہاجانا چاہیے کہ جیسا کرارا، کسا ہوا اور ٹھکا ہوا چست مصرعہ اور جیسے سلیقے اور شائستگی کے ساتھ لفظوں کا ورتارا انور مسعود کے یہاں ملتا ہے اور وہ ہمارے عہد میں مزاح منظوم کی وہ منزل کمال ہے کہ جہاں بڑے بڑوں کی سانس پھول جاتی ہے۔ رواں مصرعوں میں صناعی و پرکاری ایسی بلا کی کہ الٰہی توبہ، نظم اپنی بنت میں ایسی مسلسل اور مربوط کہ آپ ایک مصرعہ اِدھر سے اُدھر نہیں کر سکتے۔ خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی انور مسعود کی کوئی ہلکی نظم نہ پڑھی نہ سنی۔
(افتخار عارف)

یہ بڑا ظالم آدمی ہے … اُڑتی ہوئی آوازوں کو پکڑ لیتا ہے۔ پھر ان آوازوں کو منجمد کر دیتا ہے اور ان منجمد آوازوں کو جب چاہے تیلی دکھا دیتا ہے اور وہ پھر اُڑنے لگتی ہیں لیکن نئے سُروں اور انوکھے رنگوں کے ساتھ … تتلیوں کی طرح۔ فارسی، اُردو، پنجابی سب زبانیں انور مسعود کی مادری زبانیں لگتی ہیں۔ چنانچہ جب بھی کوئی موضوع اس کے دام خیال کا صید بنتا ہے اس کے لیے الفاظ کا قفس رنگ حاضر ہو جاتا ہے۔
(احمد فراز)

جہاں تک انور مسعود کی شخصیت کا تعلق ہے۔ آپ یقین کریں شاعروں میں ایسے درویش صفت انسان بہت کم ہیں۔ یہ شخص صوفی ہے جو دُنیا میں رہتے ہوئے دُنیا کا طلب گار نہیں ہے، جو بازار سے گزرا ہے لیکن خریدار نہیں ہے۔ مجھے اس اعلیٰ درجے کے شاعر اور اعلیٰ درجے کے انسان سے محبّت ہے۔
(عطاء الحق قاسمی)

انور مسعود نے طنز کا سہارا لیا ہے اور ہمارے بیمار اور جاں بلب معاشرے کی ہر دکھتی ہوئی رگ سے موضوع ڈھونڈے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ احتجاج کسی بھی رنگ میں ہو اور کسی بھی شکل میں ہو ہمارے معاشرے کے لیے نیک فال ہے۔
(مسعود مفتی)