Sale!

MANTIQ-UT-TAYR (URDU) منطق الطیر (اردو)

Original price was: ₨ 3,000.Current price is: ₨ 2,000.

  • Author: SHEIKH FARID UD DIN ATTAR
  • Translator: MAHBOOB KAASHMIRI
  • Pages: 723
  • ISBN: 978-969-662-406-6

Out of stock

Out of stock

شیخ فرید الدین عطّار نیشاپوری کی موجود پانچ مثنویوں (الٰہی نامہ، مصیبت نامہ، اسرار نامہ، خسرو نامہ اور منطق الطیر) میں سب سے مشہور و معروف اور خاص اہمیت کی حامل مثنوی ’’منطق الطّیر‘‘ ہے۔ یہ عرفانی اور تصوفی مثنوی ہے جیساکہ خود عطّار نیشاپوری نے ’’خسرونامہ‘‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ یہاں عشق کے مرغ کی معراج جانبازی ہے۔ منطق الطّیرمیں 4458 اشعار ہیں۔ بعض موجود نسخوں میں اشعار کم یا زیادہ ہیں یعنی شعروں کی تعداد 4300 سے 4600 کے درمیان ہے۔ اس کی بحر رمل مسدس محذوف ہے۔ ’’منطق الطّیر‘‘ کی ترتیب میں حمد، نعت، منقبت کے بعد داستان شروع ہوتی ہے۔ اس مثنوی میں پینتالیس عنوانات ہیں اور آخر میں خاتمۂ کتاب ہے۔ ہر عنوان ایک حکایت ہے۔ مثنوی کا موضوع دلچسپ ہے۔ ایک مقام پر پرندے جمع ہوتے ہیں تاکہ اپنے لیے بادشاہ منتخب کریں۔ ہُدہُد پرندہ جو حضرت سلیمانؑ کے دربار میں رہ چکا ہے، ان پرندوں کا راہنما بنتا ہے اور کہتا ہے ہمارا بادشاہ سیمرغ ہے اور اُس تک پہنچنا آسان نہیں۔ وہاں جانے کے لیے سات پُرخطر وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ راستے میں مشکلات، رنج اور مصیبتیں آئیں گی لیکن سب کا مقابلہ عشق کی قوت، مسلسل جدوجہد اور صداقت سے کرنا پڑے گا۔ سیمرغ کوہ قاف میں رہتا ہے جو بلند ترین پہاڑی سلسلہ تمام دُنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ بہت سے پرندوں نے مشکلات کا ذکر سن کر سفر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ہُدہُد نے بتایا کہ سات خطرناک وادیاں ہیں جن کو طے کرنا ہے۔ پہلی وادی طلب ہے اور دوسری وادی عشق ہے۔ تیسری وادی معرفت ہے، چوتھی وادی قناعت، پانچویں وادی توحید، چھٹی وادی حیرت اور ساتویں وادی فقر اور فنا ہے۔ تب جاکر راستہ صاف ہوجاتا ہے اور سیمرغ سے ملاقات کا سامان تیار ہوتا ہے۔
(ڈاکٹر سیّد تقی عابدی)

کچھ مترجم کے بارے میں:
ڈاکٹر محبوب کاشمیری پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں لیکن ادبی حلقوں میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ یکم فروری 1973ء کو صوبہ سندھ کے شہر کنری میں پیدا ہوئے۔ مقامی سکول میں ابتدائی تعلیم کے بعد شاہ عبداللطیف بھٹائی کالج میرپور خاص سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا ۔ سکول کے زمانے ہی سے تخلیقی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔ بچوں کے رسائل میں ان کی تحریروں کی اشاعت ہوئی اور یوں ادبی سفر کا آغاز ہوا۔ نصاب سے زیادہ دوسرے مطالعے کا جنون تھا۔ شہر کی لائبریری میں کثرت سے نشست اور مطالعہ محبوب مشغلہ تھا۔ پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں پروفیشنل تعلیم کا آغاز ہوا۔ 1995ء میں دورانِ تعلیم شعبہ پنجابی کالج میگزین ’’پرواز‘‘ میں بطور ایڈیٹر اور 1998ء میں چیف ایڈیٹر کی ذمہ داری نبھائی اور اپنی علمی اور ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ 1997ء میں ’’ اسے میرا غم ستائے گا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ڈاکٹر محبوب کاشمیری کا شمار اُردو غزل کے حوالے سے تیزی سے نمایاں ہوتا نظر آ رہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والے نئے مجموعہ کلام ’’عکسِ آب‘‘ نے محض چند دنوں میں فروخت کا نیا ریکارڈ قائم کر کے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ اردو کے علاوہ پنجابی اور سندھی کے بھی اچھے لکھاری ہیں۔ فارسی شعر و ادب سے دلچسپی نے عطار کی عظیم مثنوی ’’منطق الطیر‘‘ پر کام کرنے کی طرف مائل کیا۔ آج کل بھمبر آزاد کشمیر میں بطور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔