Sale!

MAHARAJA PORUS مہاراجا پورس

Original price was: ₨ 1,500.Current price is: ₨ 1,050.

  • Author: DR. BUDDHA PRAKASH
  • Translator: PROF. HAMEEDULLAH SHAH HASHMI
  • Tag: 5014
  • Pages: 223
  • Year: 2021
  • ISBN: 978-969-662-375-5

ایڈیٹر کا نوٹ

صاحبانِ علم و نظر ہی جانتے ہیں کہ تاحدِّ نگاہ پھیلی زمین میں کھدائی کس جگہ کی جائے تو اس میں مدفن حقیقتوں کو آشکار کیا جا سکتا ہے۔ بدھا پرکاش بھی ایسے ہی صاحبِ علم ونظر ہیں جنھوں نے تاریخ کے وسیع میدان سے پورس کو یوںکھود نکالا ہے کہ وہ شخص جس کےحالاتِ زندگی کے متعلق دو چار موٹی موٹی باتوں کےسوا یونانی کتابوں میں کچھ دستیاب نہیں تھا، اپنی پوری شخصیت، حالات اور واقعات کے ساتھ ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ پر یہ بھی کیا ستم ظریفی ہے کہ جس شخص نے مہاراجا پورس کو بازیاب کیا، آج اس کے اپنے حالاتِ زندگی بسیار کوشش کے دستیاب نہ ہوسکے۔ مگر ’’لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے‘‘ ،بدھا پرکاش کی یہ کتاب ان کا نام زندہ رکھنے کو کافی رہے گی۔ ان کی ژرف نگاہی کے قائل تو قارئین زیرِ نظر کتاب پڑھ کر ہو ہی جائیں گے، یہاں بطور ایڈیٹر کی گئی کاوشوں کے متعلق چند معروضات گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
بدھا پرکاش نے پورس کے ڈانڈے ہندومت کی کتابوں ویدا ور مہابھارت وغیرہ سے جوڑے ہیں جو کہ قدیم ہندوستانی زبان سنسکرت میں لکھی گئی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب انگریزی میں “Poros the Great” کے نام سے لکھی گئی ہے۔ انگریزی میں سنسکرت ناموں کو عام طور پر لفظ کے آخر میں Aکی اضافت کے ساتھ لکھا جاتا ہے (جیسے مہابھارت کو Mahabharata، پوروّ کو Pauravaوغیرہ)، تو اُردو میں سنسکرت ناموں کو درست تلفظ سے لکھنا ایک کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے۔ مزید کٹھنائی مرکب الفاظ کو دُرست طور پر لکھنے میں آتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک لفظ ہے Kshatriyayajaka۔ پہلی نظر میں دیکھنے پر اس کا تلفظ خاصا مشکل محسوس ہوتا ہے پرغور کرنے پر عقدہ کھل جاتا ہے۔ یہ مرکب لفظ ہے جو Kshatriya اورYajakaدو الفاظ پر مشتمل ہے۔ اگر آخر کا اضافی Aہٹا کر پڑھیں تو درست تلفظ واضح ہو جاتا ہے یعنی کشَترِی یاجَک۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ کتاب میں جہاں جہاں اُردو میں سنسکرت نام لکھے گئے ہیں وہیں مزید تحقیق کے لیے انگریزی میں رائج سپیلنگ بھی دیے گئے ہیں مگر ان انگریزی ناموں کا تلفظ اُردو لفظ سے نہیں ملتا۔ اس وضاحت سے قارئین سنسکرت الفاظ کو اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں درست طور سے سمجھ سکیں گے۔
مزید یہ کہ اُردو قارئین چونکہ ہندی تاریخ اور دیومالا سے بالعموم واقفیت نہیں رکھتےاس لیےکتاب کا متن بعض مقامات پر وضاحتی نوٹس کا متقاضی تھا۔ اس کمی کو بطور ایڈیٹر مفید حواشی لکھ کرپورا کرنے کی اپنی سی سعی کی گئی ہے۔
بُک کارنر کی کتابوں کے شروع میںرنگین تصاویراب ادارے کا ایک ٹریڈ مارک بن چکی ہیں۔ یہ جہاں کتاب میں خوب صورتی اور دلچسپی پیدا کرتی ہیں وہیں موضوع کو بہتر طور پر سمجھنے اور ذہن نشین کرانے میں بھی مددگار ہیں۔ آخر یوں ہی تو نہیں کہتے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ کی عکاس ہوتی ہے…. تو اس کتاب میں بھی ہزاروں الفاظ کی متعدد تصاویر شامل ہیں جن سے پورس اور سکندر کی داستان کسی فلم کو دیکھنے کی مانند محسوس ہوگی…. ضرورت ہے تو صرف تھوڑے سے تخیّل کو کام میں لانے کی!
بلاشبہ، اس کتاب کے مترجم جناب پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی (تمغۂ امتیاز) ایک جانے مانے لکھاری ہیں جو ایک عرصے سے تصنیف و تالیف اور تراجم میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ زیرِنظر کتاب بھی اُن کی عرق ریزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔