HABS حبس
Original price was: ₨ 1,500.₨ 1,200Current price is: ₨ 1,200.
- Author: HASAN MANZAR
- Pages: 351
- ISBN: 978-969-662-512-4
ڈاکٹر حسن منظر کی زندگی کا ایک طویل حصّہ مسافرت میں گزرا۔ تین براعظموںکی دُھول ان کے پیروں کو لگی ہے اور شاید ہی دُنیا کے ایسے مہجور اور مجبور لوگ ہوں جن کے دُکھوں کو انھوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں بیان نہ کیا ہو۔ ’’حبس‘‘ اُردو میں بیان ہونے والا ایک ایسا نادرہ کار قِصّہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اسرائیل کے پہلے وزیرِ دفاع اور گیارہویں وزیراعظم ایرئیل شیرون کے عالمِ نزع کا قِصّہ ہے۔ حسن منظر نے ایک ماہر قِصّہ گو کی طرح آنکھ کی اس جھری سے شیرون کا قِصّہ لکھا۔ اس ناول میں انھوں نے اس سے کیسے کاری جملے کہلوائے ہیں۔ موت کے انتظار میں لحظہ لحظہ مرتے ہوئے شیرون کے احساسات اور جذبات کیا رہے ہوں گے، اس کی تصویر کشی حسن منظر نے کیا خوب کی ہے۔ ایک ایسا شخص جو صرف نفرت کرسکتا ہے۔ یہ نفرت فلسطینیوں اور عرب یہودیوں سے یکساں ہے۔ ایک ایسی نفرت جو موت کے سامنے بھی ہار نہیں مانتی۔ حسن منظر پیشے کے اعتبار سے سائکیٹرسٹ ہیں، انھوں نے اپنے پیشے کی تمام مہارت ’’حبس‘‘ میں صَرف کر دی ہے اور اُردو کو ثروت مند کیا ہے۔ مجھ ایسے بےبضاعت اور معمولی لکھنے والے ان کو لفظوں کے لعل و گہر نذر کر سکتے ہیں کہ یہی ہماری بساط ہے۔
(زاہدہ حنا)
صفِ اوّل کے ناول نگار اور افسانہ نگار حسن منظر جو اپنی جان لیوا علالت سے بڑی بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں، پیشے کے لحاظ سے ذہنی عوارض کے ڈاکٹر ہیں۔ کئی برس بیرونِ ملک رہے، بھانت بھانت کے پیچیدہ اور سادہ لوگ دیکھے، پھر سندھ کو اپنا مستقر بنایا۔ حیدرآباد کی ادبی اور مجلسی زندگی میں رنگ بھرے اور اب کراچی اُن کا ٹھکانہ ہے۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے اُنھیں آمادہ کیا کہ وہ اپنی حقیقی اور تخلیقی زنبیل میں سے ناول، افسانے، یادیں نکالیں اور یوں اُردو دُنیا ’’العاصفہ‘‘، ’’دھنی بخش کے بیٹے‘‘ اور ’’انسان اے انسان‘‘ جیسے ناولوں سے آشنا ہوئی۔ اب اسی ناول نگار نے ایک حیرت انگیز ناول ’’حبس‘‘ لکھا ہے۔ یہ تو کہیں اب ہوا کہ پاکستانیوں کواپنی اپنی پڑ گئی وگرنہ فلسطین کا پورا قضیہ پاکستانیوں کو ازبر تھا۔ انھیں بے گھر فلسطینیوں سے ایسی محبت تھی کہ وہ اُنھی کی ہزیمت، تذلیل اور دُکھ کو اپنے وجود پر پڑی اذیت سے جھیلتے اور اُن کی مزاحمت کو اپنا رزمیہ خیال کرتے۔ حسن منظر عہد نامہ قدیم، انجیل اور قرآن سے ہی آشنا نہیں، عبرانی اور عربی پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں اس زہر کوجبراً پھیلانے والے کرداروں کی حکمتِ عملی سے آگاہ ہیں اور کسی بھی پیچیدہ ترین ذہن کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہوا یوں کہ ظلم، بربریت، شقاوتِ قلبی اور ہیبت کی تجسیم جس اسرائیلی شخص کی صورت میں ہوئی وہ جنرل شیرون ہے جو 2006ء کو کوما میں چلا گیا اور پھر تقریباً 8 برس کوما میں ہی رہا۔ اُس عرصہ میں اسرائیل کے اس ابلیس صفت جرنیل کے ذہن میں یادیں، احساسِ فخر اور مستقبل کے عزائم کیا اُودھم مچا رہے تھےاور وہ ذہن کس طرح کی پیچیدہ تصویروں کا البم بنا ہوا تھا، یہ ناول اُس کی روداد ہے۔ آپ چاہیں تو اسے شعور کی رو کی تکنیک میں لکھا ہوا اُردو کا مکمل ناول کہہ سکتے ہیں جس میں پورا ناول درحقیقت ایرئیل شیرون کی داخلی خودکلامی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اُردو کا ایک حیرت انگیز ناول ہے۔
(ڈاکٹر انوار احمد)
حسن منظر کا ناول ’’حبس‘‘ حیرت انگیز ہے۔ اسرائیل کا پہلا وزیر دفاع اور گیارہواں وزیراعظم جو فلسطینیوں کی آبادیوں کو بل ڈوز کرنے والا قاتل تھا، ایک یہودی ہٹلر تھا، تل ابیب کے شیبا میڈیکل سنٹر کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بےہوش پڑا ہے۔ حسن منظر اس کے دماغ میں اُتر کر جو کچھ وہ اس بےہوشی کے عالم میں سوچ رہا ہے اسے بیان کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ خود بھی دماغ کے ماہر ایک ڈاکٹر ہیں۔ اس ناول کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ اُردو زبان میں ہے۔ اگر یہ ناول انگریزی یا کسی اور اہم زبان میں ہوتا تو یقیناً نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا جاتا۔
(مستنصر حسین تارڑ)
کچھ لوگ بڑے خاص ہوتے ہیں۔ اوپر والے کی نگاہِ انتخاب کا مرکز، اور حسن منظر انھی میں سے ایک ہیں، جن کے وجود میں اس نے رنگا رنگ صلاحیتوں کے ست ڈال دیے ہیں۔ مسیحائی اگر رزق روٹی کا وسیلہ تو دردِ دل کا تحفہ بھی ایک عنایت۔ ذہنی استعداد کی تیزی اوج کمال والی، تو آنکھ میں مشاہدے کی وہ گہرائی کہ کرداروں کے بھیتر تک کا ایکسرے لے ڈالے۔ ہاتھوں میں قلم پکڑنے کی وہ طاقت کہ جس پر اُٹھے، اُسے اندر باہر سے ایسا پینٹ کردے کہ تصویر بولنے لگے۔ ان کی کہانیوں، افسانوں میں موضوعات کے تنوع، ناولوں میں جدّت، دُنیا کے گھمائو پھرائو میں ذاتی تجربات و مشاہدات کے خزینے جن کی قلم بندی کے حوالوں سے وہ اپنے موضوعات، اپنے اسلوب، اپنی بُنت کاری اور اپنے قاری کو بھرپور گرفت میں لینے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ میں حسن منظر کی مسیحائی سے فیض یاب نہیں ہوئی۔ ہاں قصّے کہانیاں بہت سنے ہیں۔ مگر شخصی اور قلمی ناطے سے وہ میرا ہیرو ہے۔ میرے محبوب لکھاری کا یہ تخلیقی ورثہ اُردو ادب کا بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ بک کارنر جہلم مبارک باد کا مستحق ہے کہ انھوں نے حسن منظر کو چھاپنے کا فیصلہ کیا۔
(سلمیٰ اعوان)
حسن منظر نے زندگی کو بہت قریب سے، زاویے بدل بدل کر اور اُلٹ پلٹ کر دیکھا ہے۔ بر صغیر کی تقسیم کے زمانے میں وہ اُدھر سے اِدھر اُٹھ آئے تھے؛ لاہور، کراچی، حیدر آباد۔ انھیں ملکوں ملکوں گھومنے کا موقع ملا؛ کسی تماش بین کی طرح نہیں، مختلف ثقافتوں کے اندر اُتر کر دیکھنے اور محسوس کرنے کا۔ ایڈنبرا یونیورسٹی سے انسانی وجود کو اس کے ذہن کے راستے سے پرت در پرت پڑھنے اور سمجھنے والی سائکیٹری کی تعلیم پائی اور پیشے کے اعتبار سے سائکیٹرسٹ ہو گئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کا تخیل ہرا بھرا اور مطالعہ اتنا وسیع اور متنوع ہے کہ وہ ایسی ایسی انسانی صورتِ حال کو اپنے فکشن میں لے آتے رہے ہیں جو اُردو دُنیا کے کسی اور لکھنے والے کا مقدّر نہیں ہو سکا ہے۔ انھوں نے پہلا افسانہ ’’دہقان‘‘ 1948ء میں لکھا جو 1948ء میں حکومت مغربی پنجاب کے رسالے استقلال، لاہور میں شائع ہوا۔ اب تک ان کےسات افسانوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اُن کا پہلا ناول ’’العاصفہ‘‘ 2006ءمیں پڑھنے کو ملا تھا؛ بالکل مختلف مزاج کا ناول۔ پھر اس میدان میں بھی ان کا قلم معجزے دکھاتا چلا گیا۔ ڈیڑھ پونے دو دہائیوں میں سات آٹھ ناول لکھ ڈالے؛ ہر ناول ایک الگ نوع کا تخلیقی تجربہ اور جہانِ حیرت۔ ناول ’’حبس‘‘ کی کہانی کے مرکز میں اسرائیل کا پہلا وزیر دفاع اور گیارہواں وزیر اعظم ایرئیل شیرون ہے؛ جلاداعظم اور بلڈوزر ایرئیل شیرون۔ وہی جس نے اسرائیل کو عظیم تر بنانے کے لیے فلسطینیوں کے قتلِ عام اور اُن کے گھروں کو بلڈوز کرنے کا سلسلہ دراز کیا تھا۔ اس ناول کے لیے ڈاکٹرحسن منظر اپنے پیشہ ورانہ علم اور تجربے کو کام میں لاتے ہوئے ایسی تیکنیک ڈھونڈھ نکالتے ہیں جس نے ایک دَور کے منظرنامے سے اجنبیت منہا کر کے اسے جادو اثر بنا دیا ہے۔ انھوں نے مسلسل ظلم سہنے والے اور عالمی ضمیر کے لیے سوالیہ نشان ہو جانے والے فلسطینیوں کا قصّہ موت کے بستر پر پڑے ایرئیل شیرون کی نیم وا آنکھ سے جھانکتے ہوئے لکھا ہے۔ یاد رہے اپنی خصلت کے اعتبار سے قصاب کہلانے والا یہ شخص 4 جنوری 2006ء سے 11 جنوری 2014ء تک موت کے بستر پر یوں پڑا تھا کہ اس کے وجود سے ساری طاقت منہا ہو گئی تھی۔ ’’حبس‘‘ میں حسن منظر متوازی اور متوازن تاریخی شعور کو کام میں لاتے ہوئے انسانی نفسیات کے وسیلے سے کچھ ایسے سوالات اٹھا رہے ہیں جو مقتدر بیانیہ پر مبنی تاریخ کے دامن میں کہیں نہیں ہیں۔
(محمد حمید شاہد)