GHUBAR E KHATIR غبار خاطر
Original price was: ₨ 1,500.₨ 900Current price is: ₨ 900.
- Author: ABUL KALAM AZAD
- Tag: 4999
- Pages: 416
- ISBN: 978-969-662-402-8
ہندوستان پر انگریزوں کے سیاسی اقتدار کے خلاف ہماری پچاس سالہ جدوجہد کا نقطہ عروج وہ تھا، جسے’’ ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک کہا گیا ہے۔ 8 اَگست1942ء کو انڈین نیشنل کانگریس کا خاص اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا، جہاں یہ قرارداد منظور ہوئی کہ انگریز اس ملک کے نظم و نسق سے فوراً دست بردار ہو کر یہاں سے سدھاریں اور ہمیں اپنے حال پر چھوڑیں۔ اس لیے اس کے بعد جو تحریک شروع ہوئی، اس کا نام ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘‘ پڑ گیا۔
اس وقت دوسری عالمی جنگ اپنے پورے شباب پر تھی۔ انگریز بھلا ایسی قرارداد اور ایسی تحریک سے کیوںکر صرف نظر کر سکتا تھا۔ اخباروں میں اس طرح کی افواہیں پہلے سے چھپ رہی تھیں کہ کانگریس اس مفاد کی قرارداد منظور کرنے والی ہے۔ اس لیے حکومت نے حفظِ ماتقدم کے طور پر سب انتظام کر رکھے تھے۔ اس زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ 8اگست کی شب کو دیر تک یہ جلسہ ہوتا رہا جس میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اسی رات کے آخری حصے میں یعنی9اگست کو علی الصباح حکومتِ وقت نے تمام سر کردہ رہنمائوں کو سوتے میں بستروں سے اٹھا کر حراست میں لے لیا اور ملک کے مختلف مقامات پر نظر بند کر دیا۔ مولانا آزاد اور ان کے بعض دوسرے رفقا احمد نگر کے قلعے میں رکھے گئے تھے۔ مولاناآزاد کا یہ سلسلۂ قیدوبند کوئی تین برس تک رہا۔ اوّلاً، اپریل1945 ء میں وہ احمد نگر سے بانکوڑا جیل میں منتقل کر دیے گئے اور یہیں سے بالآخر 15جون1945ء کو رہا ہوئے ۔ اسی نظر بندی کے زمانے کا ثمرہ یہ کتاب’’غبارِ خاطر‘‘ ہے۔ غبارِ خاطر مولانا آزاد مرحوم کی سب سے آخری تصنیف ہے، جو ان کی زندگی میں شائع ہوئی۔ کہنے کو تویہ خطوط کا مجموعہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو ایک کو چھوڑ کر، ان میں سے مکتوب کی صفت کسی میں نہیں پائی جاتی۔ یہ دراصل چند متفرق مضامین ہیں جنھیں خطوط کی شکل دے دی گئی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم کچھ ایسی باتیں لکھنا چاہتے تھے جن کا آپس میں کوئی تعلق یا مربوط سلسلہ نہیں تھا۔
عین ممکن ہے کہ اس طرح کے مضامین لکھنے کا خیال ان کے دل میں شہرۂ آفاق فرانسیسی مصنف اور فلسفی چارلیس لوئی مونٹسکیو کی مشہور کتاب ’’فارسی خطوط‘‘ (1721ء) سے آیا ہو۔ اس کتاب میں دو فرضی ایرانی سیاح… اوزبک اور رجا… فرانس پر عموماً اور پیرس کی تہذیب و تمدن پر خصوصاً بے لاگ اور طنزیہ تنقید کرتے ہیں، اسلام اور عیسائیت پر آزادانہ اظہار خیال کرتے ہیں، جو اس عہد کی خصوصیت تھی۔ اس میں اور متعدد سیاسی اور مذہبی مسائل پر بھی زیرِ بحث آ گئے ہیں۔ اس کتاب کا دوسری زبانوں کے علاوہ عربی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
لیکن وہ ان باتوں کو الگ الگ مضامین کی شکل میں بھی قلمبند نہیں کرنا چاہتے تھے کیوںکہ اس صورت میں باہمی تعلق کے فقدان کے باعث، بعد کو انھیں ایک شیرازے میں یکجا کرنا آسان نہ ہوتا۔ اس مشکل کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ انھیں کسی شخصِ واحد کے نام خطوں کی شکل میں مرتّب کر دیا جائے۔ اُن کے حلقۂ احباب میں صرف ایک ہستی ایسی تھی جو علم کی مختلف اصناف میں یکساں طور پر دلچسپی لے سکتی تھی۔ یہ نواب صدریار جنگ بہادر، مولانا حبیب الرحمٰن خان شروانی مرحوم کی ذات تھی۔ انھوں نے عالمِ خیال میں انھیں کو مخاطب تصوّر کر لیا، اور پھر جب کبھی، جو کچھ بھی ان کے خیال میں آتا گیا، اسے بےتکلف حوالۂ قلم کرتے گئے۔ انھی مضامین یا خطوط کا مجموعہ یہ کتاب ہے۔
غبار خاطر کئی لحاظ سے بہت اہم کتاب ہے۔ مولانا کے حالات، بالخصوص ابتدائی زمانے کے، اتنی شرح و بسط سے کسی اور جگہ نہیں ملتے جتنے اس کتاب میں۔ ان کے خاندان، ان کی تعلیم اور اس کی تفصیلات، عادات، نفسیات، کردار، اَمیال و عواطف، ان کے کردار کی تشکیل کے محرّکات ان سب باتوں پر جتنی تفصیل سے انھوں نے ان خطوں میں لکھا ہے اور کہیں نہیں لکھا؛ اور ان کے سوانح نگار کے لیے اس سے بہتر اور موثّق تر اور کوئی ماخذ نہیں۔ پوری کتاب میں جواہر ریزے منتشر پڑے ہیں، اور یہ ان کی عام روش ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر مفکّر ہیں جیسا کہ انھوں نے خود کسی جگہ لکھا ہے، جو کچھ اسلاف چھوڑ گئے تھے، وہ انھوں نے ورثے میں پایا اور اس کے حصول اور محفوظ رکھنے میں انھوں نے کوتاہی نہیں کی، اور جدید کی تلاش اور جستجوکے لیے انھوں نے اپنی راہ خود بنا لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ذات علومِ قدیمہ و جدیدہ کا سنگم بن گئی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ ان پر غورو فکر کے دروازے کھل جاتے اور وہ ان راہوں سے ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتے، اور یہی ہوا۔ یہ اقوال جو گویا ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے اور انسانی تاریخ اور تجربے کا نچوڑ ہیں، اسی قران السّعدین کا نتیجہ ہیں۔
ڈاکٹر مالک رام