GARAAN گراں
Original price was: ₨ 995.₨ 795Current price is: ₨ 795.
- Author: TAHIRA IQBAL
- Pages: 272
- ISBN: 978-969-662-479-0
میں نے اس سے پہلے بھی طاہرہ اقبال کے کئی طویل افسانے پڑھے ہیں مگر یہ ان کے ناول ’’گراں‘‘ کا ابتدائی باب، اس کے بارے میں تو یہی کہوں گی کہ ایں کارِگراں …. تو بس ایں چیزے دِگر است۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے قلم میں نہ اتنی طاقت ہے اور نہ ہی وہ الفاظ کہ میں اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ہمت کر سکوں۔ کوئی ایک بات ہو تو مجھ جیسی کوتاہ قلم کے قابو آئے۔ کیا سراسر فصاحت و بلاغت، کیا گاتی گنگناتی مدھر عبارت ہے جس کی لہروں کا سارا اتار چڑھاؤ اور بدلتے تیوروں کا بیان طاہرہ کے قلم کی کرامت کہی جا سکتی ہے۔’’گراں‘‘ زندگی کے ایک ایک پل بدلتے روز و شب کے جلو میں لمحہ لمحہ بدلتی موہوم سے موہوم کیفیتوں کا بیان پوری رنگا رنگ جزئیات اور صوتی تاثرات قائم کرنا، اس انداز کی خلاقی اور تخلیقی ہنر کسی کسی کا ہی نصیب ہوتا ہے۔ ’’گراں‘‘ ناول کیا ہے ایک جیّد میموریل ہے جس میں رنگ بھرنے والی کے قلم (قلم ہے یا موقلم) نے گراں اور اس کے تناظر میں پھیلی نباتی اورحیاتی زندگی کے خفیف سے خفیف گوشے کو نظرانداز نہیں کیا۔ حد یہ کہ چویے کے ٹھہرے پانی کی تہ میں جمی کائی کی تہ سے پھوٹتے پودوں اورکناروں پر لٹکتے جالوں کے کتھئی رنگ اور لمبی لمبی ٹانگوں والے مینڈکوں کے رنگوں کو بھی نظر انداز کرنے کا کیا سوال، وہ تو مکئی اور باجرے کی گرم گرم بھاپ چھوڑتی روٹیوں پر مکھن کی سفید جھاگ سے پگھلتے رنگوں کو بھی رنگ دیتی ہیں۔ میں کہتی ہوں اس خاتون نے اپنی نوکِ قلم کے اندر کتنے پیلٹوں اور رنگ کی کتنی پیالیوں میں کیسے کیسے اور کتنے رنگ بھر رکھے ہیں۔ کبھی پھلا ہی کی لکڑی کے کوئلوں کی آگ پرجمی سفید راکھ ہے۔ کہیں کہیں مونگ پھلی کے کھیت کھودنے اور سُرخ سُرخ مٹی پر چھائی ہری ہری بیلوں کے رنگ ہیں۔ میں خود سے پوچھتی ہوں اور پھر اس تمام رنگا رنگ بُنت کے تاروپود سے بنتی اور ابھرتی ہوئی ’’گراں‘‘ زندگی کی ہمہ رنگی کہانی کو پڑھتی ہوں۔ حرکات و جزئیات کی خفیف سے خفیف کیفیت کو ایک راگ، ایک لَے، سُر اور رنگ کے ساتھ کہانی میں سراسر بغیر تکلّف یا کسی کوشش کے سموتے جانا… اور پھر طاہرہ کا ذخیرۂ الفاظ ہے! مجھےتو انشا کی رانی کیتکی کے بعد اسی ڈکشن نے متاثر کیا ہے۔ بس اب کیا کہوں اورکیا لکھوں، میرے قلم میں تو سکت نہیں۔ اس ظالم نےتو رفتہ و گزشتہ کو حال اور آنے والے وقت کواس طور اورانداز سے پابپا کیا ہے کہ ہر ہر زمانے کے قدموں کی چاپ آنے اور گزر جانے والے سایوں کے موہوم مسکن اس طرح موجود ہیں کہ کچھ کہنے کی حاجت ہی نہیں رہتی۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ میرے تاثرات صحیح ہیں یا غلط، پر میں نے اس کو پڑھ کر یہ دُعا کی ہے کہ اس اسٹیج پر آکر زندگی پر بھروسا کرنا عقلمندی نہیں مگر، یا اللہ! اس ناول کو مکمل طور پر پڑھنے کے لیے ضرور زندہ رکھنا۔
الطاف فاطمہ