DUKHYARE دکھیارے
Original price was: ₨ 500.₨ 400Current price is: ₨ 400.
- Author: ANIS ASHFAQ
- Pages: 168
- Categories: NOVEL
لکھنؤ کے انیس اشفاق اِس ناول کے مصنف ہیں۔ اشفاق جنھوں نے بہت سی (تنقیدی) کتابیں لکھی ہیں، (ادبی دنیا) میں نقاد کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ناول انھوں نے پہلی بار لکھا ہے۔ ناول شروع ہوتے ہی پڑھنے والے پر شاید یہ تاثر قائم ہو کہ واقعہ بیان کرنے والا اچانک اپنے گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرنے لگا ہے۔ اسے یہ محسوس کرنے میں وقت لگے گا کہ واقعہ بیان کرنے والا (خود) ناول کا ایک کردار ہے جو یہاں وہاں رہ پڑنے والے خاندان کی سب سے چھوٹی فرد ہے اور جو اپنی مری ہوئی ماں کو یاد کرتے وقت اپنے اُس بڑے بھائی کو بھی یاد کرنے لگا ہے جسے مَرے ہوئے بہت دن ہو چکے ہیں۔
انیس اشفاق نے بڑی روانی اور سہولت کے ساتھ لکھتے ہیں۔ ’’دکھیارے‘‘ بہت سادگی کے ساتھ لکھا گیا ہے لیکن تہذیبی اور انسانی سطحوں پر اس میں بہت سے معانی موجود ہیں۔
انتظار حسین
اس مختصر سے ناول سے ان کی نثر کے کئی دلکش پہلو نمایاں ہو رہے ہیں۔ آہستہ رو آہنگ، تھوڑی سی پُراسراریت، گزشتہ اور اکثر کھوئی ہوئی باتوں کی یاد اور تلاش۔ ناول پر یہ چیزیں چھائی ہوئی ہیں: بیماری، بیمارداری، موت اور گھر والوں سے بےدخلی، گزشتگاں کا انتظار…. اور یہ سب اس خوبی سے پلاٹ میں جذب ہیں کہ احساس نہیں ہوتا کہ قصہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے۔ انیس اشفاق کی زبان خوبصورت اور درست ہے(اس زمانے میں یہ درستی بڑی بات ہے)۔
شمس الرحمٰن فاروقی
میں نے ـ’’دُکھیارے‘‘ پڑھی۔ یہ ناولٹ آپ نے بہت عمدہ زبان میں لکھا ہے۔ اس کا پلاٹ بھی خوب ہے۔ بڑے بھائی اور شمامہ زندہ جاوید کردار ہیں۔ یہ ناولٹ اُردو فکشن میں اپنی مخصوص جگہ بنائے گا۔
اسلم فرخی
بڑے بھائی کی صورت میں انیس اشفاق نے ایک ایسا کردار وضع کیا ہے جو اُردو فکشن میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ ’’دُکھیارے‘‘ میں جو ماحول ہے اور جو کردار پیش کیے گئے ہیں وہ مانوس اور معمولی سے لگتے ہیں۔ ناول بھی، اگر اسے بےاحتیاطی سے پڑھا جائے، ڈرامے سے خالی نظر آئے گا۔ جہاں ڈراما نہ ہو، ہلچل نہ ہو، اس پر بےرنگ اور بےرس ہونے کا گمان ہو سکتا ہے۔ ذرا غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ بیان کا یہ پیرایہ ایک گردابی تماشا ہے جس میں کردار پھنس کر رہ گئے ہیں۔ وہ گھومتے رہتے ہیں مگر گرداب سے باہر نہیں آ سکتے۔ خود کو ناول کے آہنگ کے سپرد کرنا پڑتا ہے۔ سیدھا سادہ بیانیہ پڑھنے والے کو رُکنے اور سوچنے کے مواقع کم فراہم کرتا ہے۔ آخر میں حیرانی ہوتی ہے کہ کن راستوں پر چل کر کہاں آ نکلے ہیں۔
محمد سلیم الرحمٰن