DEHAATI BABU دیہاتی بابو
₨ 1,495
- Author: ASAD TAHIR JAPPA
- Pages: 366
- ISBN: 978-969-662-446-2
- Categories: SHORT STORIES – ESSAYS
اسد طاہر کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ’’جپّہ‘‘ کے اضافے پر یہ نام کچھ عجیب سا لگتا ہے سو مجھے بھی لگا لیکن جب مسودہ پڑھنا شروع کیا تو وہ کسی ’’جن جپھے‘‘ سے کم نہ تھا جسے آپ جپّہ کا جپھا بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں نہ لمبا لکھتا ہوں نہ لمبی بات کرسکتا ہوں۔ مختصر ترین عرض یہ کہ اسد طاہر جپّہ کی تحریروں پہ گہری نظر ڈالیں اور پھر مجھے بھی ضرور مطلع فرمائیں کہ کہیں آپ کو بھی جپّہ کی تحریر نے یونہی تو نہیں جکڑ پکڑ لیا جیسے مجھے، کہ بچپن میں پڑھا تھا…. Told sweet-Untold sweeter ۔
حسن نثار
اسد طاہر جپّہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے قلم کار بھی ہیں۔ گاؤں کے سکول میں ٹاٹ پہ بیٹھ کر پڑھے اور گورنمنٹ کالج سے ہوتے ہوئے سول سروس تک پہنچے اور اپنے والد کے خواب کو تعبیر دے دی۔ ان کے والدِ گرامی پروفیسر محمد انور خان اردو اور فارسی پہ دسترس رکھتے تھے۔ انھوں نے غالب اور اقبال سے ان کو اس طرح متعارف کرایا کہ ستاروں پہ کمند ڈالنے کی خواہش ان کے دل میں موجزن ہوگئی۔ وہ ہر نوجوان کے دل کو یہی لگن لگانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کے سب اہلِ وطن دیار ِعشق میں اپنا مقام پیدا کریں۔ انھیں یقین ہے کہ نیا زمانہ اور نئے صبح و شام ہمارے انتظار میں ہیں، ضرورت بس کمرِ ہمت کسنے اور قدم بڑھانے کی ہے۔ ان کی آواز سنیے اور ان کے الفاظ پڑھیے، جو دل سے نکلتے ہیں اور دل میں اتر جاتے ہیں۔
مجیب الرحمٰن شامی
پاکستان میں سول اور ملٹری افسران اچھے اچھے ادیب بن کر ابھرے اور نام کمایا۔ کئی نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ اس خوبصورت فہرست میں اب نیا نام اسد طاہر جپہ کا ہے۔ انھیں پڑھ کر آپ کو ایک نیا پن، ایک نئی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ دھرتی سے جڑے انسان ہیں۔ ہر زمین زاد کی طرح ان کے اندر سے بھی اپنی مٹی سے محبت گہری ہے۔ کوئی بناوٹ نہیں، کوئی خبطِ عظمت نہیں، کوئی پروٹوکول نہیں۔ جیسے ہیں ویسے ہی خود کو پیش کیا۔ خود پر میک اپ نہیں کیا۔سیلف میڈ لوگوں پر دو اثرات ہوتے ہیں۔ کامیابی ملنےکے بعد وہ ترش اور سخت دل ہو جاتے ہیں کہ جو زمانے نے ان کے ساتھ کیا وہ اب باقی لوگ بھی بھگتیں یا پھر بہت ہمدرد اور مہربان کہ جو دُکھ انھوں نے دیکھے وہ اور لوگ نہ دیکھیں۔ جپہ صاحب کو پڑھ کر لگتا ہے، وقت کے حادثات اور تھپیڑوں نے انھیں سنگ دل نہیں بلکہ ایک مہربان، انکسار پسند اور حساس انسان بنایا اور یہی ان کی ماں کی بے پناہ قربانیوں کا صلہ ہے۔اسی کتاب میں ایک ماں کی مسلسل جدوجہد کی کہانی آپ کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکے گی جو اپنی اوائل جوانی میں ہی اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے اکیلی رہ گئی تھی۔اب تک آپ نے سرکاری بابوز کی تحریروں کو پڑھا ہو گا، اب ’’دیہاتی بابُو‘‘ کو پڑھیں۔ ’’قرض چار پھولوں کا‘‘ پڑھ کر مجھے لگا میں اپنی کہانی پڑھ رہا ہوں اور یہ احساس گہرا ہوا کہ ہم دیہاتیوں کے دُکھ، سُکھ اور جدوجہد کی کہانیاں مائوں کی طرح سانجھی ہیں۔
رؤف کلاسرا
تخلیق کا ہنر کسی کی عطا ہے۔ اس حوالے سے اسد طاہر خوش قسمت ہیں کہ انھیں یہ ہنر عطا ہوا، وہ مثبت سوچ کے حامل ہیں۔ اپنی مٹّی سے محبت اور وطنِ عزیز کے لیے کچھ کرنے کی دُھن۔ اسد طاہر ہمیشہ ہر اس قافلے میں شریک ہوجاتےہیں جس کا مقصد خیر، نیکی اور بھلائی ہو۔ یہ ہمارا اعزاز ہےکہ انھوں نے اخوت کی رفاقت کا بھی حق ادا کیا۔ اپنی سرکاری مصروفیات اور سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ اسد طاہر اپنی تحریروں کے ذریعے پاکستان کی مضبوطی و استحکام کے خواب دیکھتے ہیں۔ مختلف قومی و بین الاقوامی موضوعات پر ان کے مضامین انگریزی و اردو اخبارا ت میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ آپ روایتی سرکاری بابُو کی بجائے قائداعظم کے فرمان کے مطابق امانت اور دیانت کے ساتھ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمہ وقت،شب و روز اور موسموں کے سرد و گرم سے بےنیاز۔ چند روز ہوئے ان کے مضامین پر مشتمل ان کی پہلی کتاب ’’دیہاتی بابُو‘‘ کا مسودہ پڑھنے کو ملا۔ جب بھی کبھی چند لمحے میسر آئے میں ان کا مسودہ کھول کے بیٹھ گیا اور جو مضمون پڑھنا شروع کیا اسے ختم کرکے دم لیا۔ حُسنِ نظر، حُسنِ فکر اور پھر دوراندیشی اور درد مندی۔ اس کتاب میں آپ کو بہت کچھ ملے گا۔ معیشت کے اسرار و رموز، معاشرتی رویوں کے نشیب و فراز، دیہات کی سادہ و خوبصورت زندگی، شہروں کی چمک دمک اور ایک خوبصورت سماج کا طلوع ہوتا ہوا افق۔ اسد طاہر کے پاس ہر رنگ کا ہنر موجود ہے۔ تحریر کی چاشنی اور قاری کو ہم سفر اور ہم نوا بنانے کا انوکھا فن۔ ان کی ہمہ صفت شخصیت سے ابھی بہت کچھ متوقع ہے۔ خیر، نیکی اور بھلائی۔ ایسی ہی پُر تاثیر باتیں جو دل میں گھر کر جائیں اور ایک نئی صبح کی نوید بن کر دل پر دستک دیتی رہیں۔
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب
دیہاتی بابُو پڑھ کر میں برسوں پیچھے چلا گیا ہوں، چشمِ تصور مجھے گاؤں میں لے گئی ہے۔ کیا زمانہ تھا، مینہ برستا تھا تو مٹی خوشبو دیتی تھی۔ یہ سہانی مہک سانسوں کے راستے جسموں میں اتر جاتی اور روحوں کو تازہ کردیتی تھی۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ دیہی سکولوں میں جانے والے بچے بیٹھنے کے لیے گھر سے محض بوری لے کر جاتے تھے۔ پرائمری سکول کے بعد مڈل اور ہائی سکول کے لیے بچوں کو میلوں چلنا پڑتا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دور کے دیہاتی سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ پوری لگن سے پڑھاتے تھے، شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اُس زمانے میں تعلیم تجارت نہیں بنی تھی، اساتذہ کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے شاگرد نامور ہوں۔ افسوس کہ آج کل اس خوبصورت جذبے کی جگہ دولت کی رغبت نے لے لی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں دیہی پس منظر کے حامل افراد کی عادات و اطوار اور رویے شہری لوگوں سے قدرے مختلف ہیں۔ دیہاتی بابُوؤں کے رویوں میں خالصتاً محبت بولتی ہے۔ اسد طاہر جپّہ کہنے کو بابُو ہیں مگر ان کے اندر ایک خدا ترس انسان چھپا ہوا ہے۔ وہ بڑے عہدوں پر رہ کر بھی مٹی کی محبت نہیں بھولے، ان کی تحریروں میں بھی دھرتی کی محبت بولتی ہے۔ ’’دیہاتی بابُو‘‘ کو جب آپ پڑھنا شروع کرتے ہیں تو دلچسپی بڑھتی جاتی ہے اور آخری صفحہ پڑھ لینے کے بعد آپ گہری سوچوں میں اتر جاتے ہیں اور سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
مظہر برلاس
صاحبِ تحریر ہنرمند ہو تو تحریر کمال ہوجاتی ہے ورنہ محض زوال کی تصویر۔ ہمارے بڑے بھائی اور سینئر اسد طاہر جپہ نثر میں اثر پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ نثرپارہ رواروی میں لکھا جائے تو روانی ناپید اور محبت سے لکھا جائے تو مطالعیت پیدا ہوجاتی ہے۔ مطالعیت کسی بھی نثرپارے کی رُوح سے کم نہیں۔ چاہے وہ ناول ہو یا افسانہ، کالم ہو یا خاکہ، مضمون ہو یا مکتوب، مطالعیت نہیں تو نثر پر نثار ہونے کو کچھ نہیں بچتا۔ اسد طاہر کے ہاں یہ عنصر جملوں میں گھلا ملا اور فقروں میں گندھا ہے۔ تاثیر انگیزی کی یہ صلاحیت خداداد ہے۔ کوشش نہیں عطا ہے، کاوش نہیں رضا ہے، خواہش نہیں دُعا ہے۔ عامیانہ تخلیقات کی اس تاریک رات میں روشنی بھری نثر کی سحر نمودار ہو تو آنکھیں خودبخود سکون پاتی ہیں۔
اسد طاہر کا موضوع معیشت ہو یا مُعاشرہ، اُنھیں مُشت بھر لفظوں سے مشامِ جاں کو مہکانا آتا ہے۔ شُماریات کے حوالے سے اعداد پر لکھنے والا بندہ تعداد کا گورکھ دھندا پیش کرے اور قاری تب بھی پڑھتا چلا جائے تو تحسین تو بنتی ہے۔ تحصیلِ محصولات کے مصروف شعبے سے جُڑے سرکاری افسر ہوکر بھی اس قدر باقاعدگی سے نثر نگاری بھی بڑا کام ہے۔
یہ تحریریں ایسی ہیں کہ آپ انھیں ان کے سیاق و سباق کے علاوہ بھی پڑھیے تو لطف دیں گی۔ ان میں خشکی نام کو نہیں۔ تر و تازہ لہجے میں بات سے بات نکلتی ہے اور موجوں کی روانی کے مانند بہتی چلی جاتی ہے۔ کہیں کسی موڑ پر صاحبِ تحریر اصلاحِ معاشرہ کی تجویز بھی دینا چاہیں تو نصیحت کے طور پر نہیں، مشورے کے طور پر دیتے ہیں جو کہ اچھے نثر نگاروں کا خاصہ ہے۔ اس خاصیت کے لیے اسد طاہر خصوصی مبارک کے مستحق ہیں۔
حالاتِ حاضرہ پر اُن کی نظر گہری ہے۔ تبھی تجزیے میں تجربے کی آمیزش کرکے پیش کرتے ہیں۔ صاحبِ مطالعہ شخص ہی اپنی عمیق اور وسیع سوچ سے ایسے گوہر پارے برآمد کرسکتا ہے۔ بات میں ذات کا عنصر نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ اسد طاہر کے ہاں بات بنتی ہے اور خوب بنتی ہے۔مَیں اس کتاب کی اشاعت پر انھیں دِلی مبارک پیش کرتا ہوں اور دُعا گو ہوں کہ تخلیق کا جوہر اُن پر مہربان رہے اور وہ یونہی اپنی ذات کی تہہ میں چھپے تمام امکانات کو بروئے کار لاتے رہیں۔
رحمٰن فارس