COMPANY KI HUKOOMAT کمپنی کی حکومت
₨ 800
- Author: BARI ALIG
- Pages: 407
- Year: 2021
- ISBN: 978-969-662-372-4
Out of stock
Out of stock
غلام باری (1907ء – 1949ء)، باری علیگ کے قلمی نام سے شہرت، اُردو کےاہم ادیب اور مؤرخ، کئی زبانوں کے عالم، برطانوی ہند میں ضلع گورداس پُور کی تحصیل کلانور میں پیدا ہوئے۔ تقسیم سے قبل ہی ان کا گھرانا لائل پور میں آ کر آباد ہو گیا جہاں انھوں نے کالج تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں علی گڑھ یونیورسٹی چلے آئے اور ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ برطانوی سامراج کی سختیوں سے دلبرداشتہ باری علیگ نے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود سرکاری جاب کے لیے درخواست نہ دی اور چوری چھپے لاہور چلے آئے اورایک اخبار میں باری علیگ کے قلمی نام سے کام کرنا شروع کیا، تاہم حکومت مخالف مضامین کے باعث اخبار مالکان نے جلد ہی نوکری سے نکال دیا۔ شادی بھی انھیں کسی ایک جاب پر قانع نہ کرسکی اور وہ لاہور، امرتسر ، رنگون کے مختلف اخبارات کے لیے کام کرتے رہے۔ کمیونزم کو عروج ہوا تو اس طرف متوجہ ہوگئے کیونکہ کمیونزم انھیں اپنے امپیریلزم مخالف خیالات سے ہم آہنگ محسوس ہوتا تھا۔ برطانوی حکومت کے دَور میں ہندوستان کی جتنی بھی تاریخیں لکھی گئیں وہ انگریزوں کو ہند میں ترقی و خوشحالی کا علمبردار ٹھہراتی تھیں۔ باری علیگ نے اس نظریے کی مخالفت کی اورحقائق کی روشنی میں برطانوی ہند کی صحیح تاریخ لکھنے کی سعی کی۔ انھوں نے تاریخ پر 13 کتب لکھیں جن میں ’’کمپنی کی حکومت‘‘، ’’اسلامی تاریخ و تہذیب‘‘ ، ’’ تاریخ کیا ہے‘‘، ’’تاریخ کا مطالعہ‘‘، ’’انقلابِ فرانس‘‘ زیادہ مشہور ہوئیں۔ وہ عالمی تاریخ کے طویل مطالعہ کے بعد ’’تاریخ و تہذیب ‘‘ کے زیر عنوان ہر دور کی عالمی تاریخ و تہذیب کا جامع تنقیدی جائزہ پیش کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے اور بہت سا کام مکمل کر لیا تھا، مگر 1949ء میں ان کی بے وقت موت سے نہ صرف یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، بلکہ مکمل شدہ کام کا بہت سا حصہ بھی ضائع ہو گیا۔ مسودے کا درمیانی حصہ بعنوان ’’اسلامی تاریخ و تہذیب‘‘ کسی نہ کسی طرح محفوظ رہا جو پہلی مرتبہ 1970ء میں منظرِ عام پر آیا جس کا جدید ایڈیشن حال ہی میں ’’بک کارنر‘‘ سے شائع ہو گیا ہے۔ اس مختصر سی کتاب کے مطالعہ سے تاریخِ عالم کے حیرت انگیز اور اہم ترین باب کو زیادہ صحیح طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ باری علیگ نے اپنے دور کے کئی لکھنے والوں کی سوچ کو متاثر کیا۔ سعادت حسن منٹو، باری علیگ کو اپنا رہنما اور استاد کہتے تھے۔ باری علیگ کی کتابوںنے بعد ازاں ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ 42 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔ فیصل آباد میں مدفون ہیں۔10دسمبر1999ء میں باری علیگ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کی 50ویں برسی کے موقع پر پاکستان پوسٹ نے ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا ۔
—
باری علیگ کے قلم نے اس وقت شعور کی آنکھ کھولی جب برصغیر میں فرنگی اقتدار اپنے عروج پر تھا۔ بڑے بڑے بہادر حق بات کہنے سے کتراتے تھے۔ فرنگی کے خلاف لب کشائی ایک سنگین جرم تھا۔ سیاست و معیشت پر فرنگی کے پروردہ اور نسلوں سے انگریز کے وفادار چلے آنے والے انسانوں کا تسلط تھا۔ ایسے دور میں باری علیگ نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا بے خوف نوکِ قلم پرلے آئے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ غلامی نے افرادِ قوم کے اذہان پر صدیوں سے محکومی کی گرد کی تہیں جما دی ہیں، کارواں لُٹ گیا ہے، کسی کو احساسِ زیاں بھی نہیں، کشتی ڈگمگا رہی ہے اور کوئی نا خدا بھی نہیں۔ باری نے یہ چیز شدّت سے محسوس کی کہ پورے ملک کی فضا پر سکوت طاری ہے۔ صحیح سمت میں کوئی مؤثر تحریک تو کیا عام لوگوں کے ذہنوں سے سوچ کی کوئی لہر بھی انگریز کے خلاف نہیں اٹھ رہی۔ باری علیگ نے اسی احساس کے تحت قلم سے جہاد شروع کیا۔ ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف کی تو انھیں باغی قرار دے دیا گیا۔ حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ بنے مگر ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ باری نے علمی ادبی محفلوں میں اخبارات اور اپنی تصانیف میں ہر جگہ اور ہر انداز سے جہاں غیر ملکی حکمرانوں کا پردہ چاک کیا، وہاں اس بے ضمیر اور خودغرض ٹولے کی سازشوں اور گھٹیا حرکتوں کو بے نقاب کیا جو ہر دور میں حاکموں کی چوکھٹ پر اپنا سرر گڑ تا ہے۔ انھیں وطن کی لوٹ کھسوٹ اور عام لوگوں کی معاشی بدحالی بُری طرح کھٹکتی تھی۔ باری نے عوام کو شعور بخشنے اور صحیح راہ پر چلانے کے لئے جذباتی نعروں کی راہ اختیار نہیں کی بلکہ علمی و منطقی طریقہ اختیار کیا۔ سائنسی انداز تحقیق کا سہارا لیا۔ بقول ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، ’’وہ ادیب تھا اور ادب ہی کو سیاسی بیداری کا ذریعہ بتاتا تھا۔‘‘
ڈاکٹر غلام شبیر