Sale!

BLACK & WHITE بلیک اینڈ وائٹ

Original price was: ₨ 999.Current price is: ₨ 699.

  • Author: HASSAN NISAR
  • Pages: 367
  • ISBN: 978-969-662-438-7

حسن نثار کی تحریر اور اس کی گفتگو مجھے سعادت حسن منٹو کی یاد دلاتے ہیں۔ میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتا تھا کہ حسن نثار اُردو صحافت کا سعادت حسن منٹو ہے، لیکن ایک تو یہ اندازِ بیان مبالغہ آمیز ہوتا، دوسرے انتہائی روایتی۔ اس صورت میں مجھے مبالغہ آمیزی پہ تو شاید نہیں، البتہ روایتی ہونے کی بنا پر منٹو کی رُوح اور حسن نثار دونوں سے شرمندہ ہونا پڑتا۔ منٹو کی طرح حسن نثار بھی معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو ملفوف اور ڈھکے چھپے انداز میں پیش کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ ہمارے مرض کا کوئی روایتی علاج ممکن نہیں اور ہمارے زخموں کو ایک سفاک سرجن کی ضرورت ہے۔ وہ کچھ لوگوں کو ان زخموں کا دوا اور بعض اوقات دُعا کے ذریعے علاج تجویز کرتے ہوئے دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیتا ہے۔ حسن نثار دیانت داری سے سمجھتا ہے کہ ہم اپنے ماضی کو، جیسا بھی وہ ہے، سمجھے اور تسلیم کیے بغیر، اپنے دُکھوں اور مسائل کا کوئی قابل عمل حل تلاش نہیں کر سکتے۔ ماضی کی تفہیم کا یہ سفر ہی اس کے نزدیک خود شناسی کا سفر ہے۔ جان جوکھوں کا یہ سفر کوئی معمولی یا آسان سفر نہیں۔ اس سفر کا مسافر جب حیرت افروز دریافتوں اور ناقابلِ یقین انکشافات سے مالا مال دامن لے کر واپس لوٹتا ہے تو وہ مصلحت، منافقت اور مداہنت کے ان رائج الوقت سکوں سے بے نیاز ہو چکا ہوتا ہے جو وہ ابتدائے سفر میں اپنی جیب میں ساتھ لے کر نکلا ہوتا ہے۔ حسن نثار کے کھردرے لفظ، دو ٹوک لہجہ اور بلند آہنگ اسلوب …. یہ سب ہمیں اس کے اسی سفر کی کہانی سناتے ہیں۔ حسن نثار کے دوسرے بے شمار ناقدین کی طرح مجھے بھی حسن نثار کی سوچ اور بعض خیالات سے اکثر اختلاف رہتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ میں انھیں مکمل طور پہ نا درست سمجھتا ہوں، بلکہ اس لیے کہ یہ میرے دل کو نہیں بھاتے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کی تائید میرے بس میں نہیں۔ حسن نثار کو سنتے اور پڑھتے ہوئے مجھے اکثر ایک خاص طرح کی جھنجھلاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چنانچہ میں ان دونوں کاموں سے ممکنہ حد تک گُریز کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص، چاہے وہ حسن نثار ہی کیوں نہ ہو کہ جس سے میری رفاقت کی عمر پچاس برس سے زیادہ پر محیط ہے، میرے تصوّرات کے سکوں زار (Comfort Zone)میں مخل ہو ۔ہاں ایک آدھ بار ایسا ضرور ہوا کہ میرے دل نے چاہا کہ میں حسن نثار کو اس کے بعض خیالات پر سرِعام چیلنج کروں، محفل میں اس کی گفتگو کے دوران در آنے والے کمزور لمحوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کسی سوچی سمجھی دلیل کی مدد سے اسے چاروں شانے چت کردوں، لیکن ایسا کبھی نہ ہو سکا۔ عین اس لمحے، میں خوف کا شکار ہوگیا اور میرا ارادہ ماند پڑ گیا۔ ایسے ہر موقعے پر میں نے دیکھا کہ حسن نثار تنہا نہ تھا۔ تاریخ اپنے ناقابلِ تردید حقائق سمیت اس کے ساتھ کھڑی تھی۔

شعیب بن عزیز