پورے گیارہ سال کی نہیں تھی جب ماں فوت ہوئی، ماں کی زندگی کا آخری دن چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کے ساتھ میری یاد میں محفوظ ہے۔ ’’ایک سوال‘‘ ناول میں ناول کا ہیرو جگدیپ مر رہی ماں کے بستر کے پاس جس طرح کھڑا ہے، اسی طرح میں اپنی مر رہی ماں کے بستر کے پاس کھڑی تھی اور میں نے جگدیپ کی مانند دل اور ذہن کی یکسوئی کے ساتھ خدا سے کہا تھا، ’’میری ماں کو نہ مارنا‘‘ اور مجھے بھی اس کی طرح یقین ہوگیا تھا کہ اب میری ماں نہیں مرے گی کیونکہ خدا بچوں کا کہا نہیں ٹالتا… لیکن ماں مر گئی تھی اور میرا بھی جگدیپ کی طرح خدا پر سے اعتقاد اٹھ گیا تھا۔
اور جس طرح جگدیپ اس ناول میں ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی اور ایک طاق پر رکھی ہوئی دو سُوکھی روٹیوں کو اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتا ہے، ان روٹیوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے کئی دن کھاؤں گا، اسی طرح میں نے ان سُوکھی روٹیوں کو پیس کر ایک شیشی میں ڈال لیا تھا۔
۱۵ مئی ۱۹۷۳ء کو جب دہلی یونیورسٹی نے آنریری ’ڈی لٹ‘ کی ڈگری عطا کی تو گھر آنے پر دیویندر نے اپنی جیب میں کچھ چھپا کر کہا، ’’دیدی! آج کوئی من آئی کرنے کو جی چاہتا ہے، ناراض نہ ہونا۔‘‘ مَیں جواب میں ہنس پڑی تھی، ’’ارے! تیری من آئی جو بھی ہو گی اچھی ہوگی۔‘‘ اور دیویندر نے جیب سے ایک ریشمی رومال، مصری اور اکیس روپے نکال کر کہا، ’’دیدی!آپ کا کوئی باپ یا بھائی ہوتا، کوئی شگن کرتا، یہ شگن ان کی طرف سے۔‘‘ آنکھیں بھر بھر آئیں اور یاد کیا ’’ایک سوال‘‘ ناول میں جب ناول کا ہیرو اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی بھرپور جوان سوتیلی ماں کی اپنے ہاتھ سے اس کی من چاہی شادی کر لیتا اور وہ پُر شباب لڑکی تھالی میں روٹی پروس کر کہتی، آؤ ماں بیٹا مل کر کھائیں، تو وہ روٹی کا پہلا لقمہ توڑتے ہوئے کہتا ہے، ’’پہلے یہ بتاؤ کہ تم میری ماں لگتی ہو یا بہن لگتی ہو یا میری بیٹی لگتی ہو؟‘‘ تب ناول کا یہ حصہ لکھتے ہوئے دیویندر میرے سامنے نہیں تھا لیکن چودہ سال بعد جب دیویندر نے وہ رومال اور وہ مصری اور وہ روپے میری جھولی میں ڈالے تو میرے دل میں آیا، بول بعینہ وہی تھا، ’’ارے! پہلے یہ بتا، ’’تُو میرا باپ لگتا ہے یا میرا بھائی کہ میرا بیٹا…؟؟
امرتا پریتم
نئی دہلی